۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
علمائے ہند کا عظیم اجلاس قم میں منعقد

حوزہ/ ضرورتوں کے پیش نظر خوشگوار اور پیار و محبت سے بھرے ماحول میں ہم اندیشی و ہمفکری باعلماء فاضل وبزرگان قوم و ملت ہندوستان کے عنوان سے قم المقدسہ کے مدرسے حجتیہ فقہ سپریم ایجوکیشن کمپلیکس میں ایک عظیم اجلاس منعقد ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ضرورتوں کے پیش نظر خوشگوار اور پیار و محبت سے بھرے ماحول میں ہم اندیشی و ہمفکری باعلماء فاضل وبزرگان قوم و ملت ہندوستان کے عنوان سے قم المقدسہ کے مدرسے حجتیہ فقہ سپریم ایجوکیشن کمپلیکس میں ایک عظیم اجلاس منعقد ہوا۔

جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جسے قاری یکسالہ حافظ کل قرآن مجید سید حسین محمد رضوی نے انجام دیا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی مدیر قرآن وعترت فاونڈیشن، علمی مرکز، قم، ایران نے پروگرام کی ضرورت پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا، قوم کے بزرگ علماء جوکسی وجہ سے خلوت نشین ہیں انہیں اس اجلاس کی کرسی پرلانے کی ضرورت ہے، کیونکہ انکے سایے میں تمام ہم عصر دوستوں کی فعالیت پروان چڑھنے کی ضرورت ہے۔
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء کا خاص خیال رکھنے والے بزرگان ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ قوم ومعاشرہ کا رخ کس طرف ہونا چاہئے۔

مولانا موصوف نے مزید ذکر کیا کہ یہ تیسرا ہم اندیشی اجلاس اگرچہ باتاخیرمنعقدہوا لیکن آپ بزرگوں کی تائید سے انشاء اللہ مستقل ہوتا رہے گا۔

اس پروگرام کےخصوصی مہمان جامعہ المصطفیٰ العالمیہ کے ثقافتی مسئول حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر رضائی مدظلہ العالی نے فرمایا! مجھے ہندوستان کی سرزمین نے جوسب سے زیادہ متاثر کیا وہ سادگی، قناعت، پیار و محبت کا ترانہ تھا۔

آپ نے فرمایا! منتظمین ادارہ کا نہایت مشکور ہوں کہ ایک بار پھر بزرگوں کو ایک سینٹر پر دعوت دیکر پروگرام کو نورانی بنایا۔

آپ نے وفات حضرت ام البنین (س) کی مناسبت سے فرمایا: اپ نے جو ایثار و شہادت پیش کیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جبکہ آپ نے امیراالمومنین علی(ع) کے سلسلہ میں فرمایا! حضرت علی(ع) ۲۵ سال تک گوشہ نشین ضرور رہے مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ حضرت فعال نہیں تھے بلکہ ایک ایک منٹ کا حساب و کتاب تھا اور شب و روز خالق یکتا کی عبادت کے ساتھ ساتھ معاشرہ اور لوگوں کی خدمت میں مشغول تھے، ہرشیدائی کے لئے آپکی زندگی درس عمل ہے۔  

آپ نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو اگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اہل ہندوستان کو اپنے ملک کے بارے میں فکر کرنی چاہیے کہ آپکی زندگی کیسی ہونی چاہئے اور آپکی فعالیت کیسی ہونی چاہئے، ہم ذرا رہبر معظم کی راہنمائی پر غور و فکر کریں؛ رہبر معظم انقلاب نے انقلاب اسلامی کے دوسرے قدم کے بیانیہ میں جن نکات کی جانب اشارہ کیا ہے اس میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں، حتیٰ ہندونیزیم اور بودیسٹھ کے شامل حال ہے کیوں کہ یہ بیانیہ جدید اسلامی تہذیب یعنی امام زمانہ کی عالمی حکومت کا مقدمہ ہے۔

حجت الاسلام و المسلمین نے کہا کہ یقینا قطرہ قطرہ دریا شود کہ مثال اچھی ہے مگر ہم اس رفتار سے چل کر ۱۰۰سال بعد تک بھی علمی، اخلاقی، ثقافتی اور سماجی فعالیتوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

آپ نے فرمایا کہ ہمارے لئے امام خمینی (رہ) کی ذات گرامی آئیڈیل ہے، ابتداء میں امام خمینی(رہ) تنہا اس فکر کے حامل تھے، انقلاب لانا کسی کے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہزاروں سالہ شہنشاہیت کونیست ونابود کرسکتے ہیں۔

انہوں نے اپنے سفر بنگلادیش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگوں نے ہمیں بنگلادیش میں غدیر کے حوالے گفتگو کرنے کو منع کیا تھا مگر میں اس کے خلاف غدیر کا پروگرام کرنے کا ارادہ کیا اور چونکہ ہدف پاک و طاہر تھا غیب سے مدد ہوئی میں آگے بڑھا نتیجہ میں اہل سنت کی جامع مسجد میں آج تک غدیر کا پروگرام منایا جاتا ہے۔

انہوں نے فرمایا کہ آپ سبھی بخوبی آگاہ ہیں کہ روایت کے مطابق اربعیین شیعوں کے نزدیک ایمان کی علامتوں میں سے ایک ہے اور اس کا اھل سنت کے کیا تعلق مگر میں سے اس ملک میں نے اربعین کے مسئلے کو چھیڑا اسمیں بھی کامیاب ہوا نتیجہ میں اہل تسنن اربعین پورے شان و شوکت سے مناتے ہیں اور بعض ان ایام میں کربلا کی زیارت کو جاتے ہیں ۔

ڈاکٹر رضائی نے ۲۰ جمادی الثانیہ یوم ولایت حضرت فاطمہ زہرا (س) اور یوم مادر کے پروگرام کا تذکر کرتے ہوئے کہا کہ بنگلادیش میں ہماری ایک اور کوشش اس موقع پر اہل سنت کے درمیان محافل کا انعقاد اور اس دن کو یوم مادر کے عنوان سے قرار دینا تھا کہ الحمد للہ اس میں بھی کامیابی نصیب ہوئی، آج کافی برسوں سے اس ملک میں اس موقع پر عالیشان جشن منایا جاتا ہے اور وہاں کے اہل سنت یوم ولادت حضرت زیراء (س) کو یوم مادر کے عنوان سے مناتے ہیں اور اہل سنت حضرت فاطمہ زہراء کو ماں فاطمہ کہتے ہیں۔

آپ نے اپنی گفتگو کے سلسلہ میں اگے بڑھاتے ہوئے ہندوستان کا رخ کیا اور فرمایا! ہمیں اس میں ملک کے لئے خوب غور و فکر کی ضرورت ہے، یوں تو کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں ۱۰۰شیعہ دینی مدارس (حوزہ علمیہ) ہیں مگر ان میں سے فقط چالیس فعال ہیں، جبکہ ہم نے فقط ایک شہرمیں اہلسنت کا لڑکیوں دینی مدرسہ دیکھا ہے جہاں ۴۰۰ طالبات مشغول تحصیل ہیں، در حالاں کہ ایران کے جامعۃ الزہراء(س) میں بھی زیر تعلیم لڑکیوں کی تعداد اتنی نہیں ہے۔

آخر میں آپ نے فرمایا! اگر ہم مکتب شہید سلیمانی کے پروردہ ہیں تو ہمیں قطرہ قطرہ نہیں بلکہ دریا کے انداز میں عمل کرنا چاہئے۔

حجت الاسلام والمسلمین سید نیاز حیدر صاحب نے اپنی گفتگو میں سبھی کو اتحاد و یکجہتی کی دعوت دیتے ہوئے اسے بابرکت عمل بتایا اور وقت کی پابندی پر زور دیتے ہوئے کہا: قرآن کریم اور احادیث ائمہ معصومین علیہم السلام میں بھی وقت کی پابندی کی بہت تاکید کی گئی ہے کیوں کہ وقت کی پابندی انسان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔

انہوں نے اس طرح کے اجتماع میں تمام بزرگ علمائے کرام کو مدعو کئے جانے پر زور دیا اور مزید کہا: ایک جگہ بیٹھ کر دینی، علمی، ثقافتی اور دیگر مسائل پر بزرگان دین کی گفتگو خوشایند عمل ہے، ہمیں اس نشست کو فال نیک سمجھنا چاہئے۔

آپ نے مزید کہا: معمولا تحریکوں اور نہضتوں کا اغاز مختصر اور محدود افراد سے ہوتا ہے مگر تحریکیں اگے بڑھتی جاتی ہیں اور کاروان بنتا جاتا ہے، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ 
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر 
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

پونہ کے اس برجستہ عالم دین نے یہ کہتے ہوئے کہ اس طرح کے جلسات کے سلسلے کو باقی رکھا جائے فرمایا: اس نشست کا موضوع "ھم اندیشی و ھم فکری علمائے ھند" بہت کلی موضوع تھا لہذا موضوع جزئی دیا جائے تاکہ وقت کے پیش نظر گفتگو کسی نتیجہ تک پہونچ سکے۔

ہندوستان کے فعال اور برجستہ عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید علی دہرادونی نے بھی اس پروگرام کا پرجوش انداز سے استقبال کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ میری طبیعت ناساز رہا کرتی ہے مگر اس کے باوجود اس میں شرکت کو واجب سمجھا اور ہمیشہ اسمیں بڑھ چڑھکر حصہ لینے کےلئے تیار ہوں۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شبیہ حیدر حسینی مظفرنگری نے بھی اس پروگرام کونیک فعال سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ یقینا یہ مبارک قدم ہے، کمر ہمت کسئے اور بغیر کسی ناامیدی کے یہ کاروان آگے بڑھائے۔

مولانا موصوف نے فرمایا کہ جب ہم اندیشی اور ہم فکری کے عنوان سے یہ اہم جلسہ منعقد ہوا تو ضروری یہ بھی ہے کہ جو باتیں ہوں کھل کر ہوں، اشارے، کنارے اور حاشیے سے پرہیز کیا جائے۔

مصنف، مولف اور متعدد کتابوں کے مترجم حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا وزیر حسن مظفر نگری نے بھی ہر طریقے کے مثبت خیال کا اظہار کرتے ہوئے فعالیت کو آگے بڑھانے کی دعائیں کی اور کہا کہ ہم اندیشی اور ہم آہنگی کی قوم وملت کے درمیان میں شدید ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید فرمایا کہ اس قحط الرجال کے دور میں علماء و افاضل کا اس عنوان سے اپنا قیمتی وقت نکال کر بیٹھنا سبھی کے لئے ایک بڑی نعمت ہے، بزرگوں کا احترام، چھوٹوں کی حوصلہ افزائی فیوضات اور برکات الٰہی کا سبب بنتی ہے۔

آپ نے ہندوستان کی بزرگ ہستی بانی تنظیم المکاتب مولانا غلام عسکری صاحب مرحوم کا عظیم جملہ دہراتے ہوئے فرمایا کہ " میری قوم بےعمل نہیں بلکہ بےخبر"۔

سرزمین ہندوستان کے برجستہ خطیب و عالم حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید رضا حیدر زیدی نے اپنے بیان میں فرمایا کہ اس طرح کی بیٹھک کی سبھی ضرورت محسوس کیا کرتے ہیں، ہم سبھی اسکی کامیابی کے لئے کوششیں کریں۔

انہوں نے کہا کہ کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، قوم و ملت کی خدمت میں ہندوستان کی بزرگ شخصیت خود آگے بڑھی، لوگ آتے گئے کاروان بنتا گیا۔

پروگرام کے کنوینر حجۃالاسلام والمسلمین مولانا سید اشہد حسین نقوی نے نشست میں شریک بزرگ علمائے کرام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا فرمایا کہ بڑی محنت سے اس نشست کا اہتمام ہوا ہے جو بزرگان دعوت کے باوجود اپنی مشکلات کی وجہ سے اس نشست میں شریک نہیں ہوسکے ہیں توقع ہے کہ آئندہ کی نشست میں ضرور تشریف فرما ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ بزرگ علمائے کرام کے احترام کے پیش نظر نشست کا کلی موضوع علمائے ہند کی ہم اندیشی اور ہم فکری رکھا گیا تھا مگر بزرگان قوم وملت نے جزئی موضوع کو خود انتخاب کرکے موضوع پرروشنی ڈالی اور جلسہ کو کامیاب بنایا۔

پروگرام کے کنوینر مولانا سید اشہد حسین نقوی کے اس سوال کے جواب میں کہ آیندہ بھی یہ پروگرام منعقد ہو یا نہیں تو تمام بزرگ علمائے کرام نے مثبت جواب دیتے ہوئے اسے کامیاب بنانے میں ہر طرح کی ہمکاری کا اعلان فرمایا اور آیندہ کے پروگرام کے موضوع کا بھی انتخاب اور اعلان کیا۔

صدر جلسہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید احتشام عباس زیدی نے فرمایا کہ تنگی وقت کی وجہ سے تفصیلی جلسہ آیندہ ہوگا یہاں تک جو بھی تجویزات رکھی گئی ہیں وہ تصویب اور کامیاب ہے۔

مولانا موصوف نے پروگرام کی انتظامیہ اور اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی قسم کی گھبراہٹ اور پریشانی نہیں ہونی چاہئے، بلکہ اخلاص اور بغیر کسی مایوسی کے اسے آگے بڑھانا چاہئے، ہم سبھی ہمیشہ اسکی کامیابی کے لئے دعا کرتے رہیں گے۔

قرآن و عترت فاونڈیشن کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا قیصر عباس خان نے آخر میں دعائے امام زمان (عج) کے ساتھ پروگرام کو اگلے وقت تک ملتوی کیا۔ 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .